Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

نہ فکر فردانہ یاد ماضی

نہ چین دل کو نہ بے قراری

نہ وصل کی سرزشیں نظر میں

نہ بے بسی ہجر کے سمے کی

نہ حد سے گزرا ہوا جنوں وہ

نہ بے کلی وہ پہلے جیسی

بس اک اداسی ہے دھیمی دھیمی

بس اک خموشی ہے بے کراں سی

بس اک بے نام سی جلن ہے

بس اک بے درد سی تھکن ہے

جو زندگی کے ادھورے پن کو

حدوں سے آگے بڑھا رہی ہے

ائر فریشنر کی خوش بو میں تازہ پھولوں کی مہک مل کر فضا کو معطر کیے ہوئے تھی۔
بہت خوب صورت اسٹینڈز میں موم بتیاں روشن تھیں، جن سے ماحول بڑا فسوں خیز و رومانٹک تھا۔ میز پر ان کی پسندیدہ ڈشز موجود تھیں، کینڈل نائٹ ڈنر انہیں ہمیشہ سے پسند تھا اور خوش بوئیں یونہی انہیں اپنے سحر میں جکڑ لیا کرتی تھیں اور بے خود ہوکراس پیار کے ساگر میں ڈوب جاتی تھیں، خوشیاں ان کے انگ انگ سے چھلکتی تھیں۔
(جاری ہے)

اب بھی ماحول وہی سرمئی اندھیرا تھا، خوش بوئیں تھیں، چاہتیں تھیں۔
سامنے بیٹھا وہ شخص جو اس کا شریک حیات تھا محمور نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے انداز میں بھرپور استحقاق تھا۔ وہ اس سے اظہار محبت کررہا تھا۔ دن و رات کے ان گنت لمحوں میں وہ اپنی محبت کا اظہار بے شمار بار کرتا تھا شاید اس کو اس عمل سے خوشی ہوتی تھی یا وہ خود کو یقین دلانا تھا یا اس سے یقین حاصل کرنا چاہتا تھا۔

مگر وہ برف کا گلیشیر تھی۔
برف کی موٹی تہوں میں ہر جذبہ، احساس، محبت، اظہار سب دفن ہوچکا تھا۔ ان کی ذات برف میں چھپی مرقد بن چکی تھی۔

”مثنیٰ ! کیا میں وہ لمحے کبھی حاصل نہ کرسکوں گاجو فقط میرے لیے ہوں گے… جن میں صرف میری محبت کی خوش بو مہک رہی ہوگی… جہاں علاوہ میرے کسی اور کا عکس نہ ہوگا؟“وہ ان کے نرم و نازک خوب صورت ہاتھ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر گویا ہوئے۔

”ایک بات کہوں…؟“ انہوں نے بوجھل پلکیں اٹھاکر سوالیہ انداز میں کہا۔

”ایک بات نہیں، ہر وہ بات جو ہمیں قریب سے قریب تر کردے۔ “ صفدر کے دھیمے دھیمے لہجے میں گرم جوشی تھی۔

مثنیٰ کی نگاہیں ان کے چہرے پرر تھیں، لبوں پر ہلکی سی تمسخرانہ مسکراہٹ ابھری تھی۔

”نامعلوم کس قسم کی قربت چاہتے ہیں آپ، میں آپ کی بیوی ہوں، آپ کے بیٹے کی ماں ہوں ہمارے درمیان بے گانگی نہیں ہے۔

”مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ آپ میری بیوی ہیں، میرے بیٹے کی ماں ہیں، آپ نے مجھے وہ ساری خوشیاں دی ہیں جو ایک عورت دیتی ہے مگر…“

”مگر… کیا؟“ وہ مسکرائیں پھر یکلخت سنجیدگی سے گویا ہوئیں۔”یہ ”مگر“ کسی آدم خور مگرمچھ کی مانند میری حیات کے لیے خطرہ بن گیا ہے، میں جتنا اس سے بچنا چاہتی ہوں یہ اتنا میرا تعاقب کرتا ہے۔
“انہوں نے ان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالتے ہوئے کہا۔

ان کے خوب صورت چہرے پر آزردگی پھیل گئی تھی، پر فسوں ماحول میں دھواں سا پھیلنے لگا تھا جس میں ان کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔

”ایسی بات نہیں ہے ڈئیر! میں آپ پر اعتبار کرتا ہوں، مجھے یہ بھی معلوم ہے آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں مگر… مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے آپ میرے پاس ہوتے ہوئے بھی میرے پاس نہیں ہوتیں، آپ کی محبت اس پھول کی مانند ہے جو اپنی خوب صورتی میں ثانی نہیں رکھتا مگر خوش بو سے عاری ہوتا ہے۔
“ صفدر جمال کے دل کی خلش اکثر و بیش تر ان کے لہجے سے عیاں ہوجاتی تھی جس کو بیان کرنے کے لیے وہ موقع دیکھتے تھے نہ وقت۔ 

”بات ساری یہ ہے صفدر جمال صاحب!مرد ہمیشہ کم ظرف و کینہ پرور رہتا ہے۔ خود وہ کتنے بھی پہلووٴں میں وقت گزارے، کتنے ہی دامن تار تار کردے پھر بھی خود کو حق بجانب، نیک و پارسا ہی گردانتا ہے اگر بدقسمتی سے کوئی عورت کسی وجہ سے دوسرے مرد سے رشتہ وابستہ کرے تو وہ کبھی بھی قابل اعتماد نہیں رہتی، پوری سچائی، مکمل ایمان داری سے تعلق نبھانے کے باوجود بھی پہلے ”مرد “ کے حوالے سے اس پرسنگ باری جاری رہتی ہے“ مثنیٰ کے لہجے میں سسکتی ہوئی سچائی نے صفدر جمال کو شرمندہ کردیا تھا۔

”سوری ڈارلنگ! واپس آجاوٴ، کیو ں ماضی کے لیے ہم اپنی قربت خراب کریں۔“

###

دو دن سے طغرل کی طبیعت ناساز تھی۔ نزلہ، بخار و کھانسی متحد ہوکر اچانک ہی اس پر حملہ آور ہوئے تھے گو کہ فیاض صاحب نے فوراً ہی ڈاکٹر کو بلوالیا تھا۔ دوا اسے بیماری میں افاقہ تو ہوا تھا مگر بخار کی حرارت باقی تھی، دادی جان نے اس کو ان دنوں ہتھیلی کا چھالا بنالیا تھا، ان کا سارا وقت اس کے کمرے میں ہی گزرتا تھا اور ان سے بعید نہ تھا کہ وہ رات میں بھی اپنا بستر اس کے کمرے میں ہی لگوالیتیں اگر ان کا لاڈلہ انہیں منع نہ کرتا۔

دادی سے زیادہ اس کی صحت یابی کی دعائیں پری مانگ رہی تھی کہ اس کے بیمار پڑنے سے اس کی اصل شامت آگئی تھی۔ دادی پہلے ہی کیا کم اس پر جان دیتی تھیں مگر ان دنوں تو وہ اس پر کچھ اس طرح نثار تھیں کہ پری کو خوب ہلکان کرکے رکھ دیا تھا۔ اس کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے اسی کو دادی نے ڈیوٹی سونپی تھی کہ ملازماوٴں پر وہ اعتبار کرنے کی عادی نہ تھیں، صباحت، عادلہ و عائزہ ان کے معیار پر پوری نہ اترتی تھیں، ایک وہ ہی تھی جو ان کے مزاج و پسند سے بخوبی واقف تھی، وہ اس پر مکمل طور پر اعتماد کرتی تھیں یہ دوسری بات کہ ان کے اعتماد، نے اس کو گھن چکر بنادیا تھا۔
سوپ، دلیہ، کھچڑی، جوس ایک کے بعد ایک فرمائش ہوتی تھی اور سب کچھ صرف چکھا جاتا تھا۔ دو سے تیسرا چمچ اس کے منہ میں نہیں جاتا تھا۔ اب بھی دادی اس کو چکن دلیے کی ہدایت دے رہی تھیں۔ ساتھ میں چائنیز سوپ بنانے کا آرڈر بھی شامل تھا۔ دلیہ دیگچی میں رکھ کر وہ بوائل چکن کے ریشے کرنے لگی دادی بھی وہیں موجود تھیں متفکر سی۔

”کیا سوچ رہی ہیں دادی جان؟“ وہ بھی پریشان سی ہوگئی تھی۔

”میرے منہ میں خاک … کہیں میرے بچے کو وہ ”ڈھونگی“ تو نہیں ہوگیا ہے؟ بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا، دن بہ دن بچہ کمزور پڑتا جارہا ہے۔“ دادی کو نئی فکر ستائی تو وہ بول اٹھیں۔

”دادی جان! ڈھونگی نہیں ڈینگی کہتے ہیں۔“ اس نے تصحیح کی۔

”ہاں ہاں وہی ڈنگی نہ ہوگیا ہو میرے بچے کو…! ابھی لان میں مچھر دیکھے ہیں میں نے، تب سے ہی وہم آرہا ہے مجھے۔

”آپ کے لاڈلے میں اتنا زہر ہے کہ مچھر خون پی کر مرجائے گا۔“

”کیا بڑبڑارہی ہے، ذرا اونچا بول…“ دادی نے گھور کر کہا۔

”ہر جگہ اسپرے ہوتا ہے، مچھر کہاں سے آئیں گے البتہ تتلیاں ضرور آتی ہیں۔“

”آئے ہائے بنو ! اب میری نگاہیں اتنی بھی کمزور نہیں ہوئی ہیں کہ تتلیاں مجھے مچھر کے سائز کی دکھائی دینے لگیں۔“ وہ فوراً ڈپٹ کر گویا ہوئی تھیں۔

”یہ میں نے کب کہا دادی جان! میں تو یہ کہہ رہی تھی آپ طغرل صاحب کے ناز نخرے کم ہی اٹھائیں تو بہتر ہے ورنہ وہ کبھی تندرست نہ ہوں گے۔“

”ہیں…! یہ کیا بات کی تو نے؟“وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر حیرانی سے بولیں۔

”جی ، ٹھیک کہہ رہی ہوں میں، جس طرح سے آپ نے ان کو سر پر بیٹھا رکھا ہے اس طرح بیماری بھاگنے کے بجائے چمٹ کر رہ جائے گی۔

”اچھا … مجھے تو اس بات کی عقل ہی نہیں ہے … ہوں!“ وہ بے حدبارعب انداز میں اس کو گھور کر گویا ہوئی تھیں۔

”کتنی مرتبہ سمجھایا ہے تجھے، میں تیری دادی ہوں تو میری دادی بننے کی کوشش نہ کیا کر … اپنے فضول مشورے اپنے پاس رکھا کر ضرورت نہیں ہے مجھے۔“

”آپ کو تو ہر بات بکواس لگتی ہے میری۔“

”بکواس ہوگی تو بکواس ہی لگے گی ناں!“

”آج سے چند ہفتے قبل تک تو ایسا کبھی نہیں ہوا کرتا تھا۔

”آج سے آنے والے بعد تک بھی سب ایسا ہی ہوسکتا ہے جیسے پہلے تھا، بس تم اپنا رویہ درست کر لو طغرل کے ساتھ تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔“

”میں نے کون سا ان کو سولی پر لٹکایا ہوا ہے؟“ اس نے پیالہ کاوٴنٹر پر رکھتے ہوئے جلے کٹے لہجے میں کہا۔

”تم نے غلطی کی اس پر الزام لگایا ہاتھ پکڑنے کا ، بچے نے بتادیا کہ اس سے انجانے میں ایسا ہوا اس کے باوجود بھی میں نے کسی محبت و رشتے کو خاطر میں لائے بنا کھری کھری سنا ڈالیں، وہ شرمندگی سے نگاہیں نہ اٹھا سکا، معذرت کرلی غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی اور تم اکڑی اکڑی گھوم رہی ہو اور جانتی ہو نا تمہاری ماں چیل کی نگاہ رکھتی ہیں۔
“ ان کے آخری جملے پر اس کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑگئی۔

”مما نے کچھ کہا ہے دادی جان!“ وہ ان کے قریب آکر استفسار کرنے لگی۔

”مجھ سے کچھ کہنے کی ہمت اس میں نہیں ہے۔“

”پھر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ متجسس ہیں؟“

”میری عمر میں اتنا شعور آجاتا ہے کہ بندہ سامنے والے کو سمجھنے لگتا ہے۔ عادلہ بے حساب چکر لگاتی ہے طغرل کے پاس ، صباحت اور عائزہ بھی حاضری دیتی ہیں، ایک تم ہی ہو جو ایک دفعہ بھی اس کے پاس نہ گئیں۔
وہ تو سمجھیں گی نا، کوئی نہ کوئی بات ہوئی ہے جو تم اس سے کترارہی ہو۔“ وہ حسب عادت اس کو جھاڑ پلارہی تھیں۔

”آپ کیوں ایسا سوچتی ہیں؟ میرے جانے نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔“ وہ جھنجلا کر رہ گئی۔

”ہاں بھئی! من مانی کی تمہاری عادت پرانی ہے، کب مانو گی۔“ وہ ایک لٹھ سا مار کر وہاں سے چلی گئی۔

”کیسا منحوس شخص ہے، جب سے آیا ہے میری زندگی اجیرن کردی۔
کاش! میں تمہارے سوپ میں زہر ملا کر پلاسکتی۔“ وہ بڑبڑاتی ہوئی کاوٴنٹر کی طرف بڑھ گئی تھی، دادی خفگی بھرے انداز میں وہاں سے چلی گئی تھیں، جس کا مطلب تھا ان کے لاڈلے کی عیادت کیے بنا اور کوئی چارہ نہ تھا ورنہ ان کا موڈ درست ہونے والا نہ تھا۔ سوپ اور دلیہ تیار ہوا تو وہ دل نہ چاہنے کے باوجود ٹرالی سجا کر وہاں آگئی، اس جگہ جہاں اس کی مرضی کے بغیر کوئی اندر داخل نہیں ہوسکتا تھا اور آج وہ خود بے دخل کردی گئی تھی۔

وقت بھی شطرنج کی بساط کی مانند ہے اس کے احاطے میں ہر چال موجود ہے جس کو عموماً یہ بڑی چالاکی سے تو کبھی بے حد سفاکی سے چلتا ہے …

کبھی عروج کو زوال دیتا ہے

کبھی ناممکن کو ممکن بنادیتا ہے

کسی کو شہرت کی بلندی عطا کرتا ہے

کسی کو گمنامی کی پستی میں دفن کردیتا ہے

جیسے آج وہ اپنے ہی کمرے کے دروازے پر کھڑی دستک دے رہی تھی۔

”آجاوٴ…“ اندر سے طغرل کی آواز آئی اور وہ لمبی سانس لے کر اندر داخل ہوگئی۔ کمرا معطر تھا، کوئی بے ترتیبی وہاں موجود نہ تھی۔ ٹرالی بیڈ کے پاس لاتے ہوئے اس کی نگاہیں غیر ارادی طور پر طغرل کی جانب اٹھیں بیڈ کے بیچوں بیچ وہ تکیوں کے سہارے نیم دراز تھا۔ وجیہہ چہرے پر نقاہت تھی۔ دو تین دن سے شیو نہ کرنے کی باعث خاصی شیو بڑھ گئی تھی، جس نے اس کی شخصیت کو پر وقار بنادیا تھا، بال بے ترتیبی سے کشادہ پیشانی کو چوم رہے تھے۔

   3
0 Comments